مندرجات کا رخ کریں

دنیا کی تاریخ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عالمی آبادی, 10,000 BCE – 2,000 CE (vertical population scale is logarithmic)[1]


دنیا کی تاریخ یا انسانیت کی تاریخ دونوں ہم معنی اصطلاحات ہیں اور دنیا بھر میں جا بجا بکھرے ہوئے آثار قدیمہ، نسل انسانی کے افراد اور ان کی باقیات، جینیات، لسانیات اور دیگر علوم دنیا کی تاریخ کے مآخذ ہیں۔ انسانی تاریخ کی ابتدا آغاز کتابت، آغاز تاریخ نویسی اور دیگر ثانوی مآخذوں سے شمار ہوتی ہے۔

انسان کی تاریخ نویسی زمانہ قبل از تاریخ کے بعد سے شروع ہوتی ہے۔ قبل از تاریخ کے زمانہ کے بعد قدیم سنگی دور شروع ہوتا ہے اور یہیں سے انسان کی تحریری تاریخ بھی شروع ہوتی ہے۔ قدیم سنگی دور کے بعد جدید سنگی دور آتا ہے اور اسی دور میں مشرق قریب کے زرخیز ہلال میں کھیتی باڑی کی بھی ابتدا ہوئی جسے زراعتی انقلاب کہا جاتا ہے۔ یہ 8000 تا 5000 عام زمانہ ہے۔ اس زمانہ میں انسان نے منظم طریقے سے زراعت اور مویشی گری کی ابتدا کی۔[2] جیسے جیسے زراعت میں ترقی ہوتی گئی انسان خانہ بدوش کی زندگی سے باہر آکر تہذیب میں ملبوس ہوتا گیا اور مستقل گھر بنا کر رہنے لگا۔ پیداوار بڑھنے کے ساتھ ساتھ انسان کی آبادی میں بھی اضافہ ہوا اور وہ بڑی اکائیوں میں بٹ گئے۔ انھوں نے آمد و رفت کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ انسان کی آبادی پر دور میں پینے کے پانی کے ذخیرے یا وسائل کے قریب ہی رہی ہے۔ ماقبل از تاریخ اور اس کے بعد کے زمانہ میں انسانوں نے 3000 ق م میں دریائے نیل، مصر کے پاس بین النہرین کے علاقہ میں دریا کے ساحل پر آبادی بسائی۔[3][4][5] اس کے علاوہ وادئ سندھ[6] اور دریائے چین کے قریب بھی ساحل پر آبادیاں تھیں۔[7][8] پیداوار بڑھنت کی وجہ سے زراعت کے طریقوں میں بھی ترقی دیکھنے کو ملی اور فصل بہتر ہونے لگی۔ مزدوری کا رواج ہوا اور غلہ کی ذخیرہ اندوزی کرنے کی روایت بھی شروع ہوئی۔ مزدوری کی ابتدا کے ساتھ طبقوں کا نظام بھی شروع ہوا اور ذات کی ابتدا ہوئی۔ اونچے طبقے کے لوگ شہروں میں بسنا شروع ہوئے اور یہیں سے تہذیب کی ابتدا ہوئی۔ مزید ترقی ہوئی تو حساب داری اور لکھائی بھی ایجاد ہوئی۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. "Historical Estimates of World Population"۔ U. S. Census Bureau۔ August 2016۔ 09 جولا‎ئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 نومبر 2016 
  2. Tudge 1998, pp. 30–31.
  3. McNeill 1999, pp. 13–15.
  4. Baines & Malek 2000, p. 8.
  5. Bard 2000, pp. 64–65.
  6. Chakrabarti 2004, p. 11.
  7. Lee 2002, pp. 15–42.
  8. Teeple 2006, pp. 14–20.